Sunday, August 23, 2009

سگریٹ نوشی اور رمضان

دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی ہورہی ہی، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے سگریٹ نوشی میں اضافہ ہورہا ہی، سگریٹ نوشی کے ساتھ بازار میں متنوع زہریلی چھالیہ جو مین پوری اور گٹکا کے نام سے دستیاب ہیں اس کے استعمال میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ تحقیقی رپورٹوں کے مطابق سگریٹ نوشی اور مین پوری کے نام سے جاری زہریلی چھالیہ مختلف اقسام کی بیماریاں پیدا کررہی ہیں۔ خصوصاً پھیپھڑے اور منہ کے کینسر کا سبب سگریٹ نوشی اور اسی طرح کی مضر صحت اشیاءکا استعمال ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40فیصد مرد اور 8فیصد خواتین سگریٹ نوشی کے عادی ہیں، جبکہ ہر سال ایک لاکھ افراد سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے امراض کے سبب سے وفات پاجاتے ہیں۔ ویسے تو زندگی اور موت کا وقت مقرر ہے لیکن صحت اللہ کی دی ہوئی نعمت ہی، اس کی قدر کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فر ض ہی، بے شمار دینی فرائض انسانی صحت سے مشروط ہیں ۔ ویسے بھی بندہ مومن مجاہد ہوتا ہی، اس لیے اسے اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایسی طرز زندگی جو صحت کی خرابی کا موجب ہو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کا جرم ہے۔ ویسے تو طرز زندگی میں تبدیلی نے صحت مند زندگی کے اسباب کم سے کم کردیے ہیں لیکن جن چیزوں سے آدمی بچ سکتا ہی، اس سے بچنا چاہیی، اس سلسلے میں سگریٹ نوشی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، سگریٹ نوشی بعد میں دیگر منشیات کے استعمال کا سبب بھی بنتی ہے۔ رمضان کا مہینہ ترک سگریٹ نوشی کی تحریک کا مہینہ بھی بن سکتا ہی، اس لیے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے صرف قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے اور رمضان کے روزے کے ذریعے اس قوت ارادی کو استعمال کرکے سگریٹ نوشی کو ترک کرنا آسان ہے۔

آج سگریٹ نہ پیئیں: اقوام متحدہ



اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ آج یعنی اتوار کے دن سگریٹ نہ پیئیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق 2020 تک تمباکو نوشی ہلاکتوں اور معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن جائے گی۔ اتوار کو ’تمباکو نوشی ترک کرنے کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے جس کا مقصد تمباکو نوشی کے مضر اثرات پر روشنی ڈالنا ہے۔ 

پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تمباکو استعمال کرنے کے رجحان میں کمی جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔چین میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد امریکہ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ 

پاکستان میں تمباکو کے استعمال کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر دوسرا شخص تمباکو کا استعمال کرتا ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ پاکستان اینٹی سموکنگ سوسائٹی کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اکتیس کمپنیوں کے پاس سگریٹ بنانے کے اڑتیس کارخانے موجود ہیں اور سگریٹ کی فروخت کی مد میں حکومت ٹیکسوں کے ذریعے تقریباً چَالیس اَرب روپے سالانہ وصول کرتی ہے۔ 

پاکستان میں تمباکو کا استعمال سگریٹ، پان، اور دیگر طریقوں سے کیا جاتا ہے جبکہ ملک میں تمباکو کی سالانہ فروخت ایک لاکھ ٹن ہے۔

ماہرِامراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان نیشنل الائنس فار ٹوبیکو کنٹرول آف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ مغربی ممالک میں تمباکو کے استعمال پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جارہا ہے اور یہ اقدامات وہاں تمباکو کے استعمال کے رجحان میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق مغربی دنیا میں پابندیوں کے باعث سگریٹ بنانے والی کمپنیاں پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اپنی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کررہی ہیں، اور یہاں پر مناسب قانون بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا، پھر یہاں ناخواندگی زیادہ ہے اور تمباکو کے نقصانات کے بارے میں لاعلمی زیادہ ہے، لہذٰا سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کے لیے یہاں اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ماحول سازگار ہے اور نوجوان اس لت میں گرفتار ہورہے ہیں۔

ان کے بقول اس وقت ملک میں بتیس فیصد نوجوان اور آٹھ فیصد خواتین سگریٹ پیتی ہیں لیکن اگر اس میں پان، چھالیہ، گٹکا، نسوار، شیشہ اور دیگر اقسام کو شامل کرلیا جائے تو ملک کے چوّن فیصد عوام تمباکو کے نشے میں گرفتار ہیں۔

پاکستان چیسٹ سوسائٹی کے نائب چئرمین اور جناح ہسپتال کراچی میں چیسٹ میڈیسن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم رضوی کہتے ہیں کہ پچیس سے زیادہ مہلک بیماریاں تمباکو کے استعمال سے ہوتی ہیں۔ ان کے بقول نوے فیصد پھیپھڑے کے سرطان تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں، اسی طرح دمہ اور سینے کے انفیکشن کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ان کے بقول ایسے لوگ جو دن میں پچیس سے زیادہ سگریٹ پیتے ہیں، ان کو دل کا دورہ پہلے گھنٹے میں ہی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ سگریٹ نوشی دماغ کی شریانوں میں خون کی گردش رکنے کا سبب بھی بن سکتی ہے جس سے فالج ہوسکتا ہے، اسی طرح اور بھی کئی بیماریاں ہیں جو تمباکو کے استعمال سے ہوتی ہیں۔

ماہرِ امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے واضح گائڈ لائن دے دیں ہیں کہ کس طرح تمباکو کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔ 

ان کے بقول سب سے پہلے تو تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑے گا، کیونکہ ملک میں سگریٹ اتنی سستی ہے کہ سات روپے میں دس سگریٹیں مل جاتی ہیں، دوسرے یہ کہ تمام پبلک مقامات کو اسموک فری یعنی تمباکو نوشی سے پاک ہونا چاہیے جو یہاں پر نہیں ہے، اور تیسری اہم بات جو حکومت کے کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری ہیلتھ وارننگ ہونی چاہیے جو کہ ابھی صرف لکھنے کی حد تک محدود ہے۔ 

ان کے بقول مغربی ممالک میں تصویر کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ تمباکو نوشی کتنی خطرناک چیز ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک نے بھی اس پر عملدرآمد شروع کردیا ہے جبکہ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔